تمہید: حسن کی ماہیت اور سحر انگیزی
کہتے ہیں ایک حسین صبح کے اُجالے میں ایسا جادو ہوتا ہے جو دیکھتے ہی دل کے تار چھیڑ دیتا ہے۔ پھولوں پر پڑی شبنم کی بوندیں موتیوں کی طرح چمکتی ہیں اور سورج کی پہلی کرن جیسے کائنات کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیردیتی ہے۔ حسن (خوبصورتی) دراصل اسی دلکش تاثیر کا نام ہے جو انسانی احساسات کو مسحور کر لے ۔ ہر وہ روپ اور ہر وہ منظر جو دیکھنے والے کی نظر کو تھام لے اور اس کے فکر و ذہن پر قابو پا لے، وہ حُسن کہلاتا ہے ۔ حسن قد و قامت کی موزونیت اور تناسب میں ہو، رنگ و نور کی دلکشی میں ہو یا خیالات و احساسات کی لطافت میں – ہر صورت میں یہ دل کو لبھانے والی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔
انسان صدیوں سے حسن و جمال کی تعریف میں مصروف ہے۔ بظاہر سادہ لفظ “حسن” اپنے اندر بڑی گہرائی لیے ہوئے ہے۔ حسن صرف چہرے کی بناوٹ یا رنگت کا نام نہیں بلکہ یہ تو وہ کشش ہے جو روح تک اتر جاتی ہے۔ حقیقی حسن وہ ہے جو ظاہری زیبائش کے ساتھ باطنی خوبیوں کو بھی سموئے ہوئے ہو۔ ہمارے علماء و مفکرین کے نزدیک جمال کا مفہوم حسن سے بھی وسیع ہے: جمال ایسی خوبصورتی ہے جس میں ظاہری شکل کے ساتھ باطن کی روشنی بھی شامل ہو ۔ ایک عالم نے کیا خوب کہا ہے کہ حسن صرف جسم کی دلکشی و رعنائی کا نام ہے، جبکہ جمال جسم اور روح دونوں کی خوبصورتی کا امتزاج ہے ۔ اسی لئے حدیثِ نبویؐ میں اللہ تعالیٰ کے لئے “جمیل” کا لفظ آیا ہے نہ کہ “حسین” – نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “إن اللہ جمیلٌ یحب الجمال” یعنی اللہ تعالیٰ خود جمیل (نہایت خوبصورت) ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے ۔ اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ باطنی و ہمہ گیر خوبصورتی (جمال) کا مرتبہ محض ظاہری حسن سے بلند تر ہے ۔ گویا حسن اگر جسم کو لبھاتا ہے تو جمال روح کو جگمگاتا ہے۔ یہی وہ حسنِ کامل ہے جس کا سحر ازل سے انسان کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے۔
اسی تمہید کے ساتھ، آیئے حسن و جمال کے مختلف پہلوؤں کو کھول کر دیکھیں: اس کے اوصاف کیا ہیں، انسانی زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے اور ہمارے احساسات و معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ سفر علمی بھی ہے اور شعری بھی، جہاں سائنسی حقائق، رومانوی حکایتیں، فلسفیانہ نکات اور صوفیانہ رموز سب ایک ساتھ حسن کی تصویر کشی کریں گے۔ دلکش تشبیہیں اور استعارات ہمارے ہم سفر ہوں گے تاکہ یہ مضمون دلوں کو چھو سکے اور روح کی گہرائیوں میں اتر جائے۔
حسن کے اوصاف و پہلو
حسن ایک ایسی نعمت ہے جو کائنات کے ہر گوشے میں جلوہ گر ہے۔ اس کے اوصاف بےشمار اور رنگ بےانتہا ہیں۔ فطرت کی ہر ہر چیز میں حسن کے الگ رنگ نظر آتے ہیں: کہیں پھول کی پنکھڑیوں کی نزاکت میں، کہیں پرندوں کے نغموں کی شیرینی میں، کہیں ستاروں بھرے آسمان کی ہیبت ناک خوبصورتی میں تو کہیں سمندر کی اٹھتی لہروں کی روانی میں۔ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ظاہری حسن کے کچھ پیمانے عالمی ہیں – مثلاً چہرے کے خد و خال میں توازن و تناسب، نقش کی ہم آہنگی اور رنگت کی شفافیت ایسے عوامل ہیں جو دنیا بھر میں دلکش مانے جاتے ہیں ۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ انسان بچپن ہی سے خوبصورتی کو پہچاننے کی ایک فطری صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے ۔ نومولود بچے بھی متناسب اور خوشنما چہرے کو دیر تک تکتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حسن کا احساس ہماری سرشت میں ودیعت ہے۔ تاہم حسن صرف ظاہری خدوخال اور جسمانی دلکشی کا نام نہیں۔ حسن کے کچھ پہلو ایسے ہیں جو محسوس تو کیے جا سکتے ہیں مگر دیکھے نہیں جا سکتے – یہ باطن کے حسن کے پہلو ہیں۔
ہمارے ہاں عمومی طور پر حسن کو دو بڑے حصوں میں بانٹا جاتا ہے: ظاہری حسن اور باطنی حسن۔ ظاہری حسن کا تعلق صورت، رنگ روپ، نین نقش اور جسمانی دلکشی سے ہے۔ باطنی حسن کا تعلق کردار، اخلاق، علم اور روحانی اوصاف سے ہے۔ ایک حسین چہرہ آنکھوں کو بھلا لگتا ہے، مگر حسین سیرت دل کو تسخیر کر لیتی ہے۔ حقیقت میں کامل حسن وہ ہے جس میں صورت کی رعنائی کے ساتھ سیرت کی خوبیاں بھی شامل ہوں۔ اسلامی فکر میں جمال اسی کامل حسن کا نام ہے جس میں حسنِ صورت اور حسنِ سیرت دونوں شامل ہوں ۔ جمال حُسنِ افکار، حُسنِ گفتار اور حُسنِ کردار کا مجموعہ ہے – یعنی خوبصورت سوچ، خوبصورت گفتگو اور خوبصورت عمل کا حسین سنگم ۔ گویا جمال دراصل حسنِ صورت اور حسنِ سیرت کا مرقع ہے ۔ صوفی شاعر مولانا رومی نے بھی اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے: “The only lasting beauty is the beauty of the heart,” یعنی پائیدار اور لازوال حسن دل کا حسن ہے ۔ خارجی رنگ و روپ وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتے ہیں مگر دل کی خوبصورتی ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ اسی لیے ایک سادہ لوح مگر نیک سیرت انسان واقعی جمیل ہے چاہے بظاہر اس کے نقش عام سے ہوں۔
حسن کے اور بھی کئی رنگ ہیں جو انسانی تجربے میں الگ الگ صورتوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ چند اہم صورتیں درج ذیل ہیں:
- قدرتی حسن – فطرت کے مناظر کا حسن، مثلاً سرسبز وادیاں، برف پوش پہاڑ، بہتے چشمے، طلوع و غروب آفتاب کی رنگینی، چاندنی رات کی خاموش دلکشی وغیرہ۔ یہ وہ حسن ہے جو خالصتاً قدرت کے قلم کا شاہکار ہے، انسانی کاریگری سے ماورا۔
- جسمانی حسن – انسان کی ظاہری خوبصورتی، چہرے کی ساخت، آنکھوں کی چمک، زلفوں کی لہر، قد کا موزوں ہونا، آواز کی دلنوازی وغیرہ۔ یہ حسن پیدائشی بھی ہوتا ہے اور نگہداشت سے نکھارا بھی جاتا ہے۔ ہر چہرہ اپنی جگہ منفرد ہے اور ہر قوم نے اپنے معاشرتی پیمانے مقرر کئے ہیں جن سے جسمانی حسن کو پرکھا جاتا ہے ۔
- معنوی یا باطنی حسن – اخلاقی خوبصورتی اور روحانی جمال۔ سچائی، ہمدردی، ایثار، انصاف، محبت اور وفاداری جیسے اوصاف انسان کے باطن کو حسین بناتے ہیں۔ ایک شخص اگر اخلاق و کردار میں بلند ہے تو وہ حقیقی معنوں میں خوبصورت انسان ہے چاہے اس کا ظاہری حُلیہ سادہ ہی ہو۔ ہمارے معاشرے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اصل خوبصورتی اخلاق کی خوبصورتی ہے۔
- علمی و فکری حسن – خیالات اور افکار کی خوبصورتی۔ ایک عالَم یا شاعر کے خیال کی نزاکت، فلسفیانہ گہرائی یا شاعرانہ لطافت بھی حسن کی ایک شکل ہے۔ ایک اچھی بات یا حکمت بھرا قول بھی دل کو اتنا ہی چھو سکتا ہے جتنا کوئی خوبصورت منظر۔ جب ہم کسی تقریر کو “حسین اندازِ بیان” کہتے ہیں تو دراصل ہم فکری حسن کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔
- فنی و صناعی حسن – مصوری، موسیقی، شاعری، مجسمہ سازی، تعمیرات اور دیگر فنونِ لطیفہ میں جلوہ گر حسن۔ یہ انسان کا تخلیقی حسن ہے جو وہ کینوس، ساز، الفاظ یا سنگِ مرمر میں ڈھالتا ہے۔ ایک خوبصورت موسیقی دل کو سرور بخشتی ہے، اچھی شاعری روح میں اتر جاتی ہے، اور بہترین فن تعمیر دیکھنے والے کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
مندرجہ بالا تمام صورتیں مل کر حسن کے آفاقی تصور کو مکمل کرتی ہیں۔ حسن کی یہی ہمہ گیری ہے کہ کسی کو خوبصورت چہرے میں حسن دکھائی دیتا ہے تو کسی کو اچھے اخلاق میں، کسی کو علم کی گہرائی میں حسن نظر آتا ہے تو کسی کو فن پارے میں۔ حقیقت یہ ہے کہ حسن کا ہر مظہر ہمارے اندر مسرت، سکون اور تحیر کے جذبات جگاتا ہے۔ قدیم یونانی فلاسفہ افلاطون اور ارسطو کے نزدیک بھی حسن کوئی سطحی احساس نہ تھا بلکہ سچائی اور نیکی کی طرح حسن بھی کائنات کی ازلی اقدار میں سے تھا ۔ وہ حسن کو ایک ابدی حقیقت مانتے تھے جو انسان کے شعور اور جذبات کو متوازن کر کے اسے کمال تک پہنچاتی ہے ۔ گویا حسن صرف آنکھوں کا ہی نہیں دل و دماغ کا بھی سہارا ہے۔
حسن کی اہمیت اور افادیت
انسانی زندگی میں حسن کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ حسن کوئی اضافی یا ثانوی شے نہیں جسے صرف تفننِ طبع کے لیے برتا جائے، بلکہ یہ ہماری روح کی غذا اور ذہن کی تسکین کا باعث ہے۔ خوبصورتی سے محبت انسانی فطرت میں پیوست ہے – ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ خوبصورت مناظر دیکھے، خوبصورت باتیں سنے اور خوبصورت چیزوں میں گھرا رہے۔ اگر دنیا سے حسن کا عنصر نکال دیا جائے تو زندگی یقیناً بےرنگ اور بےکیف ہو کر رہ جائے گی۔ ذرا تصور کیجیے کہ نہ پرندوں کا میٹھا گیت ہو، نہ پھولوں کے رنگ، نہ ادب و فنون کی لطافتیں – ایسی دنیا میں دلوں کی کیا حالت ہوگی؟ حسن وہ چاشنی ہے جو زندگی کے ذائقے کو برقرار رکھتی ہے، جو مشکلات میں امید کا دیا جلاتی ہے اور جو پژمردگی میں روح کو سرشار کر دیتی ہے۔
حسن کی اہمیت کا اندازہ ہمیں روزمرہ زندگی میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ ایک سادہ سے گھر کو بھی ہم خوبصورت بنانے کی فکر کرتے ہیں – دیواروں کا رنگ، آرائش و سجاوٹ – یہ سب اس لیے کہ حسن ترتیب میں سکون ہے۔ اسی طرح شہروں میں پارک اور باغات اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ قدرتی حسن کی جھلک لوگوں کو سکون بخشے۔ دفاتر اور تعلیمی اداروں تک میں خوشنما ماحول کارکردگی اور اطمینانِ قلب میں اضافہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اسپتالوں میں بھی ہریالی اور خوبصورت مناظر مریضوں کی شفا میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ گویا حسن صرف آنکھوں کو تسکین نہیں دیتا بلکہ دل و دماغ پر بھی گہرا اثر رکھتا ہے۔
حسن انسان کو اعلیٰ اقدار اور عظیم کارناموں کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عشق و محبت کے جذبے نے کیسے کیسے عجائبات تخلیق کروائے۔ محبت کے اظہار میں انسان نے سنگِ مرمر کو بھی شاعری بنا دیا
تصویر: تاج محل (آگرہ، بھارت) – حسن کی خاطر اور محبت کی یاد میں تعمیر کیا جانے والا تاج محل اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ عظیم الشان مقبرہ صرف ایک عمارت نہیں بلکہ حسن اور عشق کی لافانی داستان ہے جو پتھر میں رقم کی گئی ہے۔ دنیا اسے محبت کی نشانی کے طور پر جانتی ہے۔ سفید سنگِ مرمر میں تراشا گیا یہ شاہکار فنِ تعمیر، مصوری اور جذباتی وابستگی تینوں کے حسن کو یکجا کرتا ہے۔ تاج محل کی دلکشی ہر دیکھنے والے کو یقین دلاتی ہے کہ حسن انسان کے لیے کتنا معنی خیز اور ضروری ہے کہ وہ اس کے حصول اور اظہار کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کر دیتا ہے۔
حسن کی طلب نے علوم و فنون کو بھی جلا بخشی ہے۔ سائنسدان ایک خوبصورت نظریہ یا فارمولہ دیکھ کر وجد میں آ جاتے ہیں۔ تاریخی طور پر سائنس میں بھی “حسن” کو اہمیت دی گئی ہے – بہترین سائنس دان نتائج کے ساتھ ساتھ نظریہ کی سادگی، ترتیب اور خوبصورتی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مشہور طبیعیات دان پال ڈیرک (Paul Dirac) کا قول ہے: “It is more important to have beauty in one’s equation than to have it fit experiment,” یعنی ایک مساوات میں حسن ہونا اس کے تجربے سے مطابقت رکھنے سے زیادہ اہم ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز بیان ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ حسن کی قدر انسانی فکر کے ہر شعبے میں موجود ہے۔ ریاضی کے فارمولوں سے لے کر موسیقی کی دھنوں تک، ہر جگہ حسن وہ معیار ٹھہرا ہے جو انسانی ذہانت اور محنت کو تحریک دیتا ہے۔ ایک شاعر خوبصورت ترین شعر کہنے کی تڑپ رکھتا ہے، ایک مصور کامل تصویر بنانے کی جستجو کرتا ہے، ایک معمار عظیم الشان ڈیزائن دینے کی لگن رکھتا ہے – یہ سب حسن کی جستجو ہی کے مظاہر ہیں۔
فلسفہ اور مذہب میں بھی حسن کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ تقریباً ہر تہذیب میں حسن کو خدا کی نعمت سمجھا گیا ہے۔ قدیم یونانیوں نے حسن کو خیر (نیکی) اور حق (سچائی) کے پہلو بہ پہلو ابدی قدر قرار دیا تھا ۔ مذاہبِ عالم میں یہ تصور ملتا ہے کہ کائنات کی ہر اچھی اور خوبصورت چیز خدا کی صفات کا عکس ہے ۔ اسلامی تعلیمات تو براہِ راست کہتی ہیں کہ اللہ جميل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے ، یعنی ہر وہ صورتِ حسن پسندیدہ ہے جو تکمیلِ اخلاق و کمالات کے ساتھ ہو۔ اس سے بڑھ کر حسن کی اہمیت اور کیا ہوگی کہ اسے محبوبِ خدا ہونا نصیب ہو جائے! صوفیاء کرام حسن کو حق تعالیٰ کا مظہر کہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ظاہری دنیا کی ہر خوبصورتی اصل حسنِ حقیقی (ذاتِ الٰہی) کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ یوں سمجھئے کہ حسن ایک پل ہے جو مخلوق کو خالق کے قریب لے جاتا ہے؛ انسان ظاہری حسن کو دیکھ کر باطنی حسن اور پھر حسنِ حقیقی کی طرف سفر کر سکتا ہے۔
حسن کا انسانی رویّوں پر بھی گہرا اثر ہے۔ ایک خوبصورت چیز یا دلآویز منظر دیکھ کر دل خودبخود نرم پڑ جاتا ہے، طبیعت میں خوشگوار تبدیلی آ جاتی ہے۔ خوبصورتی انسان کے جذبات کو نفاست بخشتی ہے۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ خوبصورت ماحول میں غصہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور اکتاہٹ خوشی میں بدل جاتی ہے۔ گویا حسن ایک مرہم کی طرح ہے جو دل کے زخموں کو بھرتا ہے اور روح کو راحت دیتا ہے۔ اسی لئے شعراء نے حسن کو زندگی بخش قرار دیا ہے اور اسے امید و محبت کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔
انسانی زندگی پر حسن کے اثرات
حسن کے انسانی زندگی پر بےشمار مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو حسن ہمارے جذبات اور نفسیات کو متاثر کرتا ہے۔ ایک حسین منظر دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں، دل خوشی سے بھر جاتا ہے اور دماغ میں سکون اتر آتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطالعوں سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ قدرتی مناظر کو تکنا واقعی ہمارے ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے اور خوشگوار احساسات کو بڑھاتا ہے ۔ سرسبز پہاڑوں یا وسیع نیلگوں سمندر کو دیکھنے سے انسان کو جیسے ٹھہراؤ مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج نیچر تھراپی (Nature Therapy) کو ذہنی تناؤ کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک تحقیق میں یہ بھی پایا گیا کہ قدرتی مناظر کا نظارہ صرف جذبات ہی نہیں سنوارتا بلکہ ہماری ذہنی صلاحیتوں کو بھی تقویت دیتا ہے؛ یادداشت، توجہ اور تخلیقی سوچ میں بہتری آسکتی ہے جب انسان کچھ دیر حسنِ فطرت میں کھو جائے ۔ گویا حسن صرف دل کو نہیں لبھاتا، دماغ کو بھی فائدہ دیتا ہے
تصویر: قدرتی مناظر کا حسن – قدرتی حسن انسان کے لیے قدرت کی طرف سے ایک شفا بخش تحفہ ہے۔ کھلے آسمان تلے پہاڑوں اور وادیوں کا نظارہ، سورج کا سنہری نور اور فطرت کے رنگ ہمیں روزمرہ زندگی کے ہنگاموں سے نکال کر سکون کے ایک جہان میں لے جاتے ہیں۔ نفسیاتی مطالعوں کے مطابق خوبصورت قدرتی مناظر کو صرف دیکھتے رہنے سے بھی دل کی دھڑکن متوازن ہوتی ہے اور خون کا دباؤ معتدل ہونے لگتا ہے ۔ انسان کو اپنے مسائل وقتی طور پر بھول جاتے ہیں اور اندر ایک نئی توانائی محسوس ہوتی ہے۔ آج کی مصروف اور مشینی زندگی میں یہ حسین مناظر گویا روح کی غذا ہیں جو تھکے ماندے ذہن کو پھر سے تازگی بخشتے ہیں۔
حسن کے سماجی اور معاشرتی اثرات بھی قابلِ ذکر ہیں۔ ایک خوبصورت مسکراہٹ دلوں کو جیت لیتی ہے، اور خوش اخلاقی کا حسن دشمن کو بھی دوست بنا سکتا ہے۔ حسنِ اخلاق (اچھا برتاؤ) کا اثر معاشرے پر امن و آشتی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے سے حسنِ سلوک سے پیش آتے ہیں تو تلخیاں گھلنے لگتی ہیں اور محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خوبصورت چہرہ اللہ کی نعمت ہے مگر خوبصورت کردار انسان کا اپنا کمال ہے – اور یہی وہ کمال ہے جو دوسرے دلوں میں گھر کر جاتا ہے۔ ایک بااخلاق اور مہربان شخص اپنی خوبیوں سے معاشرے میں روشنی پھیلاتا ہے، اس کی شخصیت کا حسن دوسروں کے رویّوں کو بھی سنوارتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں میں انکسار، ہمدردی اور انصاف جیسے اوصاف ہوتے ہیں، وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی خوشگوار بنا دیتے ہیں۔ ان کی موجودگی ایک پھول کی خوشبو کی طرح فضاء کو معطر کر دیتی ہے۔
جہاں حسنِ سیرت سماج کو سنوارنے میں کردار ادا کرتا ہے، وہیں ظاہری حسن بھی بعض سماجی رویّوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ نفسیاتی تحقیق کے مطابق اکثر پرکشش ظاہری شخصیت کے حامل افراد کو معاشرے میں کچھ فوائد مل جاتے ہیں؛ لوگ ایسے لوگوں کو زیادہ توجہ سے سنتے ہیں اور ان کے بارے میں مثبت رائے قائم کرنے کا رجحان رکھتے ہیں (جسے نفسیات کی زبان میں Halo effect کہا جاتا ہے) ۔ اگرچہ یہ رجحان ہمیشہ منصفانہ نہیں، لیکن یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے کہ خوبصورت ظاہر دیکھ کر ہم متاثر ہو جاتے ہیں۔ تاہم یہ اثر دیرپا تبھی ہوتا ہے جب اندرونی خوبصورتی بھی موجود ہو؛ محض چہرے کا حسن زیادہ دیر تک دلوں کو نہیں باندھ سکتا جب تک کردار کا حسن اس کا ساتھ نہ دے۔ اس لیے ظاہری حسن کے ساتھ باطنی حسن کو سنوارنا انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں کے لیے ضروری ہے۔
حسن کا ایک اور اثر تخلیقی صلاحیتوں کی بیداری ہے۔ ایک خوبصورت تجربہ یا مشاہدہ ہماری اندرونی تخلیقیت کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔ خوبصورت منظروں نے شاعروں کو شاعری عطا کی، عشق کے جذبات نے داستانیں اور ناول لکھوائے، اور فطرت کے رنگوں نے مصوروں کے کینوس بھر دیے۔ جب کوئی شخص حسن سے متاثر ہوتا ہے تو وہ بھی لاشعوری طور پر اسی حسن کی تخلیق یا حفاظت میں لگ جاتا ہے۔ مثلاً کسی کو پہاڑوں کی خوبصورتی نے متاثر کیا تو وہ ماحولیات کا محافظ بن گیا؛ کسی کو موسیقی کے حسن نے چھوا تو وہ خود ساز بنانے یا بجانے لگا۔ حسن ایک الہام کی طرح ہے جو انسانی شعور کو جلا بخشتا ہے اور اسے تعمیری رخ دیتا ہے۔
حسن کے معاشی اور معاشرتی پہلو بھی ہیں۔ خوبصورتی کی چاہ نے کئی صنعتوں کو جنم دیا ہے: فیشن، آرٹ، سیر و سیاحت، تزئین و آرائش کی صنعتیں اسی انسانی فطرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پروان چڑھی ہیں کہ انسان خوبصورت چیزیں چاہتا ہے۔ سیاحت کی صنعت کو ہی دیکھ لیجیے – لوگ دنیا بھر میں حسین مقامات کی سیر کرنے جاتے ہیں، نئے ملکوں کے حسنِ فطرت اور ثقافت کو دیکھنے کے لیے بےقرار رہتے ہیں۔ اس سے عالمی معیشت کو بھی حرکت ملتی ہے اور مختلف تہذیبوں میں میل جول بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح ذرائع ابلاغ میں اشتہارات وغیرہ عموماً خوبصورت چہروں اور دلکش مناظر کے ساتھ بنائے جاتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ کھینچی جا سکے۔ یہ تمام مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ حسن کا اثر ہماری زندگی کے ہر پہلو پر کسی نہ کسی طرح پڑتا ہے۔
جمالِ آفاقی: حسن کا روحانی اور فلسفیانہ پہلو
بحث جب حسن کی چل رہی ہو تو اس کا عالی ترین پہلو – جمالِ آفاقی یا روحانی حسن – کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ یہ وہ حسن ہے جو آنکھ سے دیکھنے میں نہیں بلکہ دل کی آنکھ سے محسوس کرنے میں آتا ہے۔ تمام مذہبی اور صوفیانہ روایات میں حسنِ مطلق کا ذکر ملتا ہے جو اصل میں خدا کی ذات کا حسن ہے۔ روحانی نقطۂ نظر سے اس کائنات میں جو بھی حسن ہمیں دکھائی دیتا ہے، وہ اسی حسنِ مطلق کا پرتو ہے۔ صوفیاء کہتے ہیں کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ کے جمال کا آئینہ خانہ ہے؛ ہر خوبصورت چیز دراصل اُس حسنِ حقیقی کی جھلک ہے جو پروردگارِ عالم کی شان ہے۔ جب ایک صوفی کسی حسین منظر کو دیکھتا ہے تو وہ اسے محض منظر نہیں سمجھتا بلکہ اسے اس میں معبودِ حقیقی کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اسی لیے بڑے صوفی شعرا نے محبوبِ حقیقی (خدا) کو محبوبِ مجازی (دنیاوی حسن) کے پردوں میں دیکھا۔ مولانا روم سے لے کر حضرت اقبال تک، ہر صاحبِ دل نے حسنِ ازل کو کائنات کے ذرے ذرے میں محسوس کیا اور اپنے کلام میں بیان کیا۔
فلسفے میں بھی حسن کا تصور نہایت بلند اور آفاقی رہا ہے۔ بہت سے فلسفیوں نے حسن، خیر اور حق کو ایک دوسرے سے جوڑ کر دیکھا ہے۔ ان کے نزدیک حسن دراصل حق اور خیر کا اظہار ہے – ایک حسین چیز اپنے اندر حقیقت (Truth) اور بہتری (Goodness) کا عنصر بھی رکھتی ہے۔ افلاطون کے خیال میں مادی دنیا کی ہر خوبصورتی ایک ازلی اور کامل حسن کے تصور کا عکس ہے جسے وہ “مثالی صُورت” کہتا تھا۔ ارسطو حسن کو توازن اور ہم آہنگی سے تعبیر کرتا تھا جو فطرت کے ہر مظہر میں کارفرما ہے۔ جدید فلسفے میں بھی جمالیات (Aesthetics) کے شعبے میں یہ بحث جاری رہتی ہے کہ حسن محض دیکھنے والے کی نظر میں ہے یا خود کوئی حقیقی وجود رکھتا ہے۔ اکثر مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ حسن کا احساس اگرچہ کسی حد تک ثقافتی اور شخصی ہو سکتا ہے، لیکن حسن کے بنیادی اصول – جیسے تناسب، توازن، تزئین اور تازگی – آفاقی ہیں۔ مثلاً ایک دلکش موسیقی چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں سن لی جائے، اس کے سر اور لے کا حسن انسانی دل پر اثر ضرور ڈالتا ہے؛ ایک معصوم بچے کی ہنسی ہر جگہ دلوں کو موہ لیتی ہے؛ ایک مہکتے پھول کی تازگی ہر ناک کو بھلی لگتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حسن کی کچھ قدریں سب انسانوں میں مشترک ہیں، جو انسانیت کی وحدت کی علامت بھی ہیں۔
روحانی اور صوفیانہ انداز سے دیکھیں تو حسن صرف لطف اندوزی کا ذریعہ نہیں بلکہ عرفان اور قربِ الٰہی کا ذریعہ بھی ہے۔ خدا نے یہ دنیا اس قدر حسین بنائی تاکہ انسان اس کے حسن کو دیکھ کر اس خالقِ حسن کو پہچان سکے جس نے یہ سب بنایا ہے۔ “ہر چیز میں اُسی کا جلوہ ہے” – یہ فکر مشرق و مغرب کے صوفیوں میں مشترک نظر آتی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے: “خدا خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے”، تو یہ حسن دراصل ایک خدائی صفت ہوا جس کا عشق ہمارے دل میں رکھا گیا ہے ۔ رومی ایک جگہ کہتے ہیں: “ہر ذرّہ جو حسن ہے وہ دراصل اس منبعِ حسن کی طرف اشارہ کر رہا ہے” (مفہوم)۔ انسان مٹی کا پُتلا ہو کر بھی جب حسن کا قدرشناس ہے تو یہ اسی لئے کہ اس کی روح ازل میں جمالِ الٰہی کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ صوفیا کے مطابق انسانی روح نے عالمِ ارواح میں حق تعالیٰ کے حسن کو دیکھا تھا – “الستُ بربّکم” کی صدا میں جو سرور تھا وہ حسنِ حقیقی کا سرور تھا – تبھی روح نے قالوا بلیٰ (ہاں تو ہمارا رب ہے) کہتے ہوئے اس حسن کی گواہی دی۔ تب سے روح کو ہر اس منظر، ہر اس صورت، ہر اس نغمے میں اپنے محبوبِ ازلی کی جھلک تلاش ہے جو دنیا میں اسے نظر آتی ہے۔
اس روحانی پس منظر کے ساتھ اگر دیکھا جائے تو حسن محض دل بہلانے کا ذریعہ نہیں رہتا بلکہ ایک عبادت اور مراقبہ بن جاتا ہے۔ قدرت کے حسین مناظر میں غور کرنا انسان کو خالقِ کائنات کی عظمت کا قائل کرتا ہے۔ قرآن مجید بھی جگہ جگہ فطرت کے حسین مظاہر کی قسمیں کھا کر انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ ان میں غور و فکر کرو۔ یہ چاند سورج، یہ ستارے، یہ پہاڑ اور دریا – ان سب میں جو حسن ہے وہ اندھا حادثہ نہیں بلکہ ایک صاحبِ جمال خالق کی نشانی ہے۔ انسان جب اس حسن کو محسوس کرتا ہے تو اس کا دل شکر اور محبت کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے۔ کئی اہلِ دل کے لیے کسی پھول کو دیکھ لینا یا پرندے کا چہچہاہٹ سن لینا ویسا ہی ہے جیسا کسی زاہد کے لیے عبادت میں لطف آنا۔ گویا حسن ایک دروازہ ہے معرفت کا، جو ہر شخص کے لیے کھلا ہے بشرطیکہ اس کی نظر ظاہرسے گزرتی ہوئی باطن تک پہنچ سکے۔
آخر میں، حسن و جمال پر اس طویل گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ حسن زندگی کا جوہر ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جس سے ہمارا ظاہری ماحول بھی سنورتا ہے اور باطنی جہان بھی۔ حسن ہمارے احساسات کو ترفع دیتا ہے، ہمارے خیالات کو بالیدگی بخشتا ہے اور ہمارے اعمال کو نیکی اور بہتری کی طرف مائل کرتا ہے۔ حسن کے بغیر زندگی ایسے ہی ہے جیسے پھول بغیر خوشبو کے، جیسے رات بغیر چاند کے، جیسے دل بغیر محبت کے۔ حسن محبت کو جنم دیتا ہے اور محبت حسن کو، ان دونوں کا ازلی ساتھ ہے۔ ایک سچے عاشق کی نظر میں محبوب کا چہرہ کائنات کا حسن سموئے ہوتا ہے تو ایک سچے عارف کی نگاہ میں کائنات کا ہر حسن محبوبِ حقیقی کا چہرہ بن جاتا ہے۔ حسن دلوں کو جوڑتا ہے، روحوں کو گرماتا ہے اور انسان کو انسان سے اور انسان کو خدا سے ملاتا ہے۔
خوبصورتی کا یہ چراغ ہر دل میں روشن ہے اور پوری کائنات میں جل رہا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم چند لمحے رک کر، یکسو ہو کر اس حسن کا مشاہدہ کریں اور اسے محسوس کریں۔ جب ہم حسن کو کھلی آنکھ اور بیدار دل سے دیکھیں گے تو یہی احساسِ جمال ہمارے اندر شکر، محبت اور امن کے دیے روشن کر دے گا۔ حسن کی یہی تاثیر ہے کہ ایک نغمہ سن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، ایک منظر دیکھ کر دل خدا کی حمد کرنے لگتا ہے، ایک نیکی کا عمل دیکھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ حسن دراصل وہ زبان ہے جس میں قدرت ہم سے بات کرتی ہے؛ یہ وہ موسیقی ہے جو کائنات میں ہر سو گونج رہی ہے۔ ہمیں بس اپنے اندر کی ہم آہنگی کو بڑھانا ہے تاکہ ہم یہ سر سن سکیں، یہ رنگ دیکھ سکیں، یہ خوشبو محسوس کر سکیں۔
آخر میں اسی خیال پر اختتام مناسب ہے کہ حسن بذاتِ خود ایک نعمت بھی ہے اور امانت بھی۔ یہ دلوں کو مسخر کرنے والی قوت بھی ہے اور روح کو بالیدہ کرنے والا جذبہ بھی۔ ہمیں حسن کو صرف ظاہری چمک تک محدود نہیں رکھنا، بلکہ اس کی گہرائی میں اتر کر زندگی میں اس کے مثبت اثرات کو پہچاننا اور سمیٹنا ہے۔ حسن کی قدر کر کے، اس سے حظ اٹھا کر اور اسے اپنی زندگی میں جگہ دے کر ہم اپنی زندگیوں کو بھی خوبصورت بنا سکتے ہیں اور دنیا کو بھی۔ جب آنکھ حسن دیکھنے کی عادی ہو جائے تو بدصورتیوں سے نفرت خودبخود دل میں گھر کر جائے گی اور ہم بہتری کی طرف بڑھیں گے۔ اللہ نے ہمیں یہ خوبصورت دنیا اسی لیے عطا کی ہے کہ ہم اس کی قدر جانیں، اس کا شکر ادا کریں اور اس حسن کو بانٹیں۔
حسن کا پیغام آفاقی ہے – یہ ہر دل تک پہنچتا ہے بشرطیکہ دل کے دروازے کھلے ہوں۔ آیئے، اپنے اندر اور باہر کے حسن کو سنواریں، پہچانیں اور اس سے محبت کریں کیونکہ یہی محبت زندگی کا اصل حاصل ہے۔ حسن ایک خوشی ہے جو ہمیشہ کے لیے دل میں گھر کر لیتی ہے اور اس کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ زندگی کے ہر موڑ پر حسن کو تلاش کیجیے، یہ آپ کو امید بھی دے گا، خوشی بھی اور اس ذاتِ کامل کا قرب بھی جس نے خود کائنات کو حسن و جمال کا شاہکار بنایا۔ 🌹
حوالہ جات:
1. عبدالغفار شیرانی، “حسن و جمال کیا ہے؟” آئی بی سی اردو
2. Boston University School of Medicine – “What constitutes beauty and how is it perceived?” (سائنس ڈےلی)
3. Psychology Today/Scenic America – “The Psychological Benefits of Scenic Beauty”
4. پال اے ایم ڈیرک کا قول (حوالہ: Goodreads) – سائنس میں حسن کی اہمیت پر
5. مولانا جلال الدین رومی – “دل کا حسن ہی اصل حسن ہے” (اقتباس بحوالہ: HealingBrave)
6. Kenneth Samples, “The 3 Transcendentals: Truth, Goodness, & Beauty” (Reasons to Believe بلاگ)