سکوت آواز کی سزا ہے سو آج ہوں کل نہیں ہوں گا

سمیع لوگو گواہ رہنا میں زندہ لفظوں میں بولتا تھا۔

حفیظ احمد


انسانی تہذیب کی تاریخ میں سب سے گہرا انقلاب وہ تھا جب پہلی بار انسانی ذہن نے آوازوں کو مفہوم دینے کی جرات کی۔ آواز سے لفظ، اور لفظ سے زبان کا جنم—یہ محض اظہار کا وسیلہ نہیں تھا بلکہ شعور کی بیداری کا اعلان تھا۔ اس مضمون میں ہم لفظوں کی پیدائش، لفظوں سے پہلے کی گفگو، اور زبان و اظہار کے وہ تمام طریقے دریافت کریں گے جنہوں نے انسان کو حیوانات پر فکری و تہذیبی برتری عطا کی۔

1. لفظوں سے پہلے کی گفگو

انسانی تاریخ کے ابتدائی دور میں کوئی زبان نہ تھی۔ پہلا انسان خاموش فطرت اور خطرناک جنگلوں میں محض اشاروں، حرکاتِ بدن، اور چہرے کے تاثرات سے اپنا مطلب بیان کرتا۔ ہاتھوں کا اشارہ، آنکھوں کا گھومنا، چہرے پر خوف یا خوشی کا سایہ—یہ سب ابتدائی گفگو کے اوزار تھے۔ شاید شکاری قبیلوں میں ایک خاموش اشارہ موت اور زندگی کا فیصلہ کرتا تھا۔

ماہرینِ بشریات کے مطابق ابتدائی انسان کی زبان “پری-لینگویج” تھی، جس میں آوازوں کے ذریعے جذبات کا اظہار ہوتا مگر مفہوم محدود تھا۔ چیخنا خطرے کی علامت، گنگنانا اطمینان کی، اور کسی شے کی نقل کرنا اس کے ذکر کی علامت بن جاتی۔ یہیں سے “آواز” آہستہ آہستہ “لفظ” کی طرف بڑھی۔

2. لفظوں کی پیدائش

لفظ کیسے پیدا ہوئے؟

اس کا جواب حیاتیات، نفسیات، اور بشریات کے سنگم پر ملتا ہے۔ انسانی دماغ میں “بروکا ایریا” (Broca’s Area) اور “ورنِکے ایریا” (Wernicke’s Area) زبان کی تشکیل اور ورنکے ایریا زبان کو سوچنے اور سمجھنے کے لیے مخصوص ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب انسانی دماغ کا یہ حصہ ارتقائی عمل میں وسعت پذیر ہوا تو آوازیں ایک منظم شکل میں ڈھلنے لگیں۔

ابتدائی الفاظ زیادہ تر مادی دنیا کی اشیاء یا اعمال سے وابستہ تھے: پانی، آگ، شکار، بھاگنا، مرنا، کھانا۔ اس کے بعد انسانی ذہن نے مجرد خیالات کے لیے بھی الفاظ تراشے—محبت، خوف، دوستی، خواب۔ یوں لفظوں نے خارجی دنیا سے آگے بڑھ کر انسانی شعور کے اندرونی دریچوں کو بھی کھول دیا۔

3. زبان: اظہار کا سب سے طاقتور ہتھیار

چند لفظوں کے جال میں رکھا دل کو رنج و ملال میں رکھا

جو بھی جذبہ سنبھالنا چاہا اس کو غزل کے خیال میں رکھا۔

من موہن بلھا

زبان نے انسان کو حیوانات پر وہ برتری دی جو جسمانی طاقت یا تیز رفتار دماغ بھی نہ دے سکتے تھے۔ زبان نے تین بڑے معجزے کیے:

1. علم کی ترسیل: نسل در نسل تجربات کا منتقل ہونا ممکن ہوا۔ پتھر کے اوزار بنانے کا فن یا شکار کی حکمتِ عملی صرف مشاہدے سے نہیں بلکہ الفاظ کی مدد سے محفوظ ہوئی۔

 2. تصوراتی فکر کی پیدائش: زبان نے انسان کو فرضی اور تجریدی دنیا بنانے کی قوت دی۔ مذہب، فلسفہ، اور سائنس کے بیج یہی سے پھوٹے۔

3. اجتماعی تہذیب کی بنیاد: زبان نے قبیلے کو قوم اور قوم کو تہذیب میں بدلا۔ قوانین، داستانیں، اور اخلاقیات سب الفاظ کے مرہونِ منت ہیں۔

زبان: وہ طاقتور ہتھیار جس نے انسان کو دیو بنایا

زبان محض الفاظ کا مجموعہ نہیں؛ یہ وہ عظیم ترین ایجاد ہے جس نے انسانی ارتقا کے دھارے کو ہی موڑ دیا۔ یہ وہ کلید ہے جس نے شعور کے خزانے کا دروازہ کھولا، اور انسان کو محض ایک ذہین حیوان سے ایک ایسی مخلوق میں تبدیل کر دیا جو کائنات کو سمجھنے، اس پر حکمرانی کرنے اور اسے بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے یہ تین معجزے دراصل انسانیت کی اجتماعی کہانی کے تین اہم باب ہیں۔

1. علم کی ترسیل: وقت میں سفر کرنے کی صلاحیت

زبان سے پہلے، علم محدود تھا۔ ایک انسان کے تجربات اور مہارتیں اس کی اپنی ذاتی ملکیت تھیں اور اس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی تھیں۔ ایک ماہر شکاری کا علم اس کے ساتھ ہی دفن ہو جاتا۔ زبان نے اس دائروی شکست کو توڑ کر علم کو لافانی بنا دیا۔

زبان کے ذریعے، ایک بزرگ اپنے پوتے کو بتا سکتا تھا کہ کس طرح کے پتھر سے (تیز) نیزہ بنتا ہے، کن پودوں کا رس زخم مندمل کرتا ہے، یا موسموں کے بدلنے کی نشانیاں کیا ہیں۔ یہ صرف معلومات کا انتقال نہیں تھا؛ یہ وقت میں سفر تھا۔ ایک نسل کا جمع کردہ علم اگلی نسل کے لیے بنیاد بنتا، جس پر وہ نئی دریافتیں جوڑ سکتی تھی۔ یہی تسلسل آگے چل کر تحریر کی ایجاد کا سبب بنا، جس نے علم کو پتھر اور کاغذ پر محفوظ کر کے اسے جغرافیائی اور زمانی پابندیوں سے مکمل آزاد کر دیا۔ آج کا جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا عظیم الشان محراب (Edifice) درحقیقت ہزاروں سالوں کے انہی زبانی اور تحریری بیانوں کی اکٹھی کی گئی اینٹوں سے تعمیر ہوا ہے۔

2. تصوراتی فکر کی پیدائش: ان دیکھے کو دیکھنے کی طاقت

حیوانات حقیقی دنیا میں رہتے ہیں—جو ہے، وہی دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ زبان کی بدولت انسان نے جو ہے کے ساتھ ساتھ جو ہو سکتا ہے کے دائرے میں قدم رکھا۔ یہ انسانی فکر کا سب سے بڑا چھلانگ تھا۔

زبان نے انہیں ایسے تصورات بنانے اور بانٹنے کی اجازت دی جن کا براہِ راست حسی تجربہ نہیں کیا جا سکتا۔ ‘انصاف’، ‘خدا’، ‘آزادی’، ‘محبت’، ‘مستقبل’، ‘لامحدودیت’—یہ سب تجریدی تصورات ہیں۔ ان تصورات نے ہی مذہب، فلسفہ اور آخرکار سائنس کی بنیاد رکھی۔

· مذہب: خداؤں، روحوں اور afterlife جیسے تصورات کی تشکیل ممکن ہوئی۔

· فلسفہ: سچائی، خوبصورتی اور اخلاقیات جیسے پیچیدہ خیالات پر بحث کا آغاز ہوا۔

· سائنس: قیاس آرائی (Hypothesis) کرنا—یعنی “اگر ایسا ہو تو کیا ہوگا؟”—درحقیقت ایک زبان ہی کا کھیل ہے۔ ایک سائنسدان اپنے تجربے کے نتائج کو الفاظ میں بیان کر کے دوسروں سے اس پر بات چیت کر سکتا ہے۔

یہ تصوراتی فکر ہی تھی جس نے انسانوں کو مشترکہ خواب دیکھنے کی صلاحیت دی، جس کے بغیر کوئی بھی عظیم انسانی کارنامہ ممکن نہ تھا۔

3. اجتماعی تہذیب کی بنیاد: اربوں اجنبیوں کو جوڑنے والا جادو

زبان نے خون کے رشتوں سے بالاتر ہو کر بڑے پیمانے پر تعاون کی راہ ہموار کی۔ ایک قبیلے کا فرد دوسرے قبیلے سے مل کر ایک قوم بنا سکتا تھا، کیونکہ وہ ایک مشترکہ زبان بولتے تھے جس میں ان کے مشترکہ خیلات، اقدار اور مقاصد تھے۔

· قوانین: “قتل نہ کرو”، “چوری مت کرو” جیسے احکامات زبان کے بغیر ممکن نہ تھے۔ انہوں نے لاکھوں اجنبیوں کو ایک اجتماعی معاہدے (Social Contract) کے تحت اکٹھا ہونے پر مجبور کیا۔

· داستانیں اور Myths: مشترکہ آباؤ اجداد، بہادری کے واقعات، یا تخلیقِ کائنات کی کہانیوں نے ایک اجتماعی شناخت (Group Identity) تشکیل دی۔ یہ کہانیاں ہی تھیں جنہوںں نے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ ایک ہیں اور ان کا ایک مشترکہ مقصد ہے۔

· اخلاقیات: اچھے اور برے کے تصورات کو الفاظ دے کر انہیں نسل در نسل منتقل کیا جا سکتا تھا، جس سے ایک ایسا اخلاقی فریم ورک وجود میں آیا جس پر وسیع پیمانے پر معاشرتی اتفاق رائے ممکن ہوا۔

اس طرح، زبان وہ “حتمی گلے ملنے والی بانہ” (The Ultimate Embrace) 

ہے جو لاکھوں، کروڑوں اجنبیوں کو ایک مشترکہ تہذیبی شناخت میں باندھتی ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر شہر، سلطنتیں، اور بین الاقوامی ادارے تعمیر ہوئے ہیں۔

The Ultimate Embrace حتمی گلے ملنا کی تشریع 

” ایک گہری قبولیت اور محبت کی علامت ہے، جو اکثر جذباتی یا روحانی تعلق کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ مکمل آرام، حفاظت، یا محبت کے لمحات کی بھی نمائندگی کر سکتی ہے، چاہے وہ رومانوی سیاق و سباق میں ہو یا ذاتی ترقی کے اندر۔ یہ اصطلاح ادب اور فن میں گہرے تعلقات یا تبدیلی کے لمحات کی وضاحت کے لیے اکثر استعمال ہوتی ہے۔ سیاق و سباق: “حتمی گلے ملنا” کا جملہ اکثر محبت اور قبولیت کے احاطے کے خیال کو پیش کرتا ہے۔ یہ ایک مثالی حالت کی تجویز دیتا ہے جہاں گرمجوشی اور تحفظ کے احساسات مکمل طور پر محسوس کیے جاتے ہیں، جو تعلق کا احساس پیدا کرتا ہے۔ یہ تصور مختلف شکلوں میں ظاہر ہو سکتا ہے، جیسے خود قبولیت، دوسروں کی قبولیت، یا زندگی کے چیلنجز کو گلے لگانا۔ ادب اور فن میں، یہ کسی کردار کے سمجھنے اور محبت کی طرف سفر کے عروج کی علامت ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر: محبت کی تلاش میں کئی سالوں کے بعد، اس نے آخرکار “حتمی گلے ملنا” کسی ایسے شخص کی آغوش میں پایا جس نے اسے مکمل طور پر قبول کیا۔

خلاصہ: زبان درحقیقت انسان کی سب سے پہلی اور عظیم ترین “ٹیکنالوجی” ہے۔ اس نے ہمیں ماضی کے علم سے لیس کیا، تجریدی مستقبل کے خواب دیکھنے کی ہمت بخشی، اور ہمیں اجتماعی طور پر ایسے کام کرنے کی طاقت دی جو کوئی بھی دوسری نوعِ حیات نہیں کر سکتی۔ یہی تین معجزے مل کر وہ ستون ہیں جن پر انسانی تہذیب کی عظیم عمارت کھڑی ہے۔

4. اظہار کے دوسرے طریقے

گر سیکھی نہیں زبان  تو بے زباں نہیں ہوں میں

ہزاروں جتن ہیں میری سرشت میں اظہار کے لئے۔

میاں اسحاق 

الفاظ سے پہلے اور الفاظ کے ساتھ ساتھ بھی انسان نے کئی اظہار کے طریقے پیدا کیے:

• مصوری اور تصویری علامتیں: غاروں کی دیواروں پر شکار کے مناظر، ابتدائی انسانی آرٹ کا ثبوت ہیں۔

• موسیقی اور رقص: ڈھول کی تھاپ اور اجتماعی رقص جذباتی اور مذہبی اظہار کا ذریعہ تھے۔

• ریاضیاتی علامتیں: گنتی اور حساب کتاب کے لیے ابتدائی علامتوں نے تجارتی اور سائنسی ترقی کی بنیاد رکھی۔

آئیے، اوپر دی ہوئی ہر چیز کو مزید وضاحت اور مثالوں کے ساتھ سمجھتے ہیں۔

1. مصوری اور تصویری علامتیں (Pictographs and Petroglyphs)

آپ نے غاروں کی مصوری کا ذکر کیا، جو اس بات کی ابتدائی ترین مثال ہے۔

· کیوں اور کیسے؟: ابتدائی انسانوں کے پاس آج کی طرح جدید زبان نہیں تھی۔ انہوںے اپنے مشاہدات (مثلاً شکار کے مناظر)، عقائد اور روزمرہ کی زندگی کے واقعات کو دیواروں پر نقش کر کے انہیں دوسروں تک پہنچایا یا محفوظ کیا۔ یہ صرف آرٹ نہیں تھا، بلکہ ایک قسم کی مرئی کہانی گوئی (Visual Storytelling) اور ریکارڈ رکھنے کا ذریعہ تھا۔

· ترقی: انہی تصویروں سے تصویری تحریر (Pictographic Writing) نے جنم لیا، جیسے قدیم مصری ہائیروگلیفکس (Hieroglyphs) اور میسوپوٹیمیا کی کیونیفارم (Cuneiform) تحریر۔ یہ علامتیں بتدریج سادہ ہوتی گئیں اور حروف تہجی کی بنیاد بنیں۔

2. موسیقی اور رقص (Music and Dance)

یہ انسانی اظہار کا سب سے پرجذب اور جذباتی ذریعہ ہے۔

· جذبات کا اظہار: موسیقی کی دھن اور رقص کے حرکات و سکنات وہ کام کرتے ہیں جو الفاظ بعض اوقات نہیں کر پاتے۔ یہ خوشی، غم، جوش، محبت یا المیے کا اظہار براہ راست دل تک کرتے ہیں۔

· اجتماعی ہم آہنگی: جیسا کہ آپ نے کہا، ڈھول کی تھاپ پر اجتماعی رقص قبائلی معاشروں میں اجتماعی شناخت (Communal Identity) کو مضبوط کرتا تھا۔ یہ لوگوں کو ایک دوسرے سے اور اپنے عقائد سے جوڑتا تھا۔

· روایتیں اور کہانیاں: بہت سی ثقافتوں میں رقص کے ذریعے پرانی داستانیں اور روایات نئی نسل تک پہنچائی جاتی ہیں۔

3. ریاضیاتی اور تجارتی علامتیں (Mathematical and Commercial Symbols)

یہ اظہار کا وہ طریقہ ہے جس نے انتہائی منطقی اور عالمی تفہیم کی بنیاد رکھی۔

· ضرورت ایجاد کی ماں: جب تجارت پھیلی اور اناج کے ذخائر شمار کرنے پڑے، تو انگلیوں کے نشانات یا کنکریوں سے آگے بڑھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس سے گنتی کے لیے نمبر سسٹم (Number System) اور حساب کتاب کے لیے علامتیں (Symbols) (جیسے +, -, =) وجود میں آئیں۔

· عالمی زبان: ریاضی کی زبان تقریباً عالمی ہے۔ ایک ریاضی کا مساوات یا ایک کیمیکل کا فارمولا دنیا کے کسی بھی کونے کے سائنسدان کے لیے یکساں مفہوم رکھتا ہے۔ یہ الفاظ کی حدود سے ماورا ہے۔

اظہار کے چند دیگر اہم غیر زبانی طریقے

اظہار کے بنیادی خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے، ذیل میں کچھ اور اہم طریقے درج ہیں:

4. جسمانی زبان (Body Language / Kinesics)

یہ اظہار کا سب سے قدیم اور فطری ذریعہ ہے۔

· چہرے کے تاثرات (Facial Expressions): مسکراہٹ، غصہ، حیران ہونا — یہ سب عالمی ہیں اور الفاظ سے پہلے سامنے والے کو ہمارا جذبہ بتا دیتے ہیں۔

· حرکات و سکنات (Gestures and Posture): ہاتھ ہلا کر خیرباد کہنا، سر ہلانا (ہاں/نہیں)، کندھے اچکانا (پتہ نہیں)، یا سینہ تان کر کھڑے ہونا (اعتماد)— یہ سب بغیر آواز کے پیغام دیتے ہیں۔

5. دستکاری اور فنون (Craft and Artistry)

اپنے ہاتھوں سے کچھ تخلیق کرنا بھی اظہار ہے۔

· مٹی کے برتن (Pottery): اس کی بنتر، نقش و نگار اور استعمال بتاتا ہے کہ کوئی معاشرہ کس طرح زندگی گزارتا تھا۔

· مجسمہ سازی (Sculpture): بادشاہوں کے مجسمے طاقت کا اظہار تھے، جبکہ مذہبی مجسمے عقیدے اور پوجا کا ذریعہ تھے۔

· تعمیرات (Architecture): ایک عمارت کا ڈیزائن بتاتا ہے کہ وہ معاشرہ کیا پسند کرتا ہے، اس کی موسم کیا ہے، اور اس کے عقائد کیا ہیں۔

6. مادی ثقافت اور اشیاء (Material Culture and Objects)

کبھی کبھی ایک چیز خود ایک پیغام ہوتی ہے۔

· تحائف (Gifts): دوستی، محبت یا صلح کا اظہار۔

· لباس (Clothing): یہ بتاتا ہے کہ آپ کس خطے، ثقافت یا طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ شخصیت کا اظہار بھی ہے۔

· جوئلری اور زیورات (Jewelry): سماجی حیثیت، دولت یا مذہبی وابستگی کی علامت۔

یہ سب مل کر انسانی شعور کے ارتقا کی گواہی دیتے ہیں کہ اظہار کا دائرہ ہمیشہ لفظوں سے بڑا اور متنوع رہا ہے۔

5. انسان کی حیوان پر فکری برتری

اڑا لی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے 

چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری۔

علامہ اقبال

حیوان بھی اشاروں اور آوازوں سے بات کرتے ہیں، مگر ان کی “زبان” نسل در نسل محدود رہتی ہے۔ انسان نے جو برتری پائی، وہ یہی تھی کہ اس کی زبان ارتقا پذیر رہی، لامحدود تصورات کو سمیٹتی رہی، اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی گئی۔ ایک پرندے کی پکار صدیوں سے یکساں ہے، مگر انسان کا لفظ “آزادی” صدیوں میں نئے نئے مفہوم اختیار کرتا رہا۔ یہی تخلیقی لچک انسانی تہذیب کی اصل بنیاد ہے۔

ذیل میں اسے مختلف زاویوں اور واضح مثالوں سے سمجھایا گیا ہے۔

انسانی فکر اور حیوانی فکر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انسان تجریدی (abstract) سوچ سکتا ہے، ماضی اور مستقبل پر غور کر سکتا ہے، اور اپنے علم کو نسل در نسل منتقل کر کے مسلسل ترقی کر سکتا ہے، جبکہ زیادہ تر جانوروں کی سوچ موجودہ لمحے اور فوری ضروریات (جیسے خوراک، تحفظ، افزائش نسل) تک محدود ہوتی ہے۔

ذیل میں کچھ اہم پہلوؤں میں انسانی برتری کی مثالیں دی گئی ہیں:

1. پیچیدہ زبان اور علامتی سوچ (Complex Language & Symbolic Thought)

· انسانی مثال: انسان نہ صرف خطرے یا خوراک کے بارے میں اطلاع دینے کے لیے آوازیں نکالتا ہے بلکہ گرامر اور حروف تہجی کے ذریعے لامحدود جملے بنا سکتا ہے۔ ہم ماضی کے واقعات، مستقبل کے منصوبوں، اور فرضی کہانیاں بیان کر سکتے ہیں۔ ہم ریاضی کی علامتیں (جیسے +, -, =, π) استعمال کر کے کائنات کے راز جان سکتے ہیں۔

· حیوانی موازنہ: چیمپینزی اشاروں کی ایک محدود زبان سیکھ سکتے ہیں، ڈولفنز کے پاس مخصوص سیٹیوں کا نظام ہوتا ہے، اور پرندے مختلف خطروں کے لیے مختلف آوازیں نکالتے ہیں۔ لیکن یہ سب موجودہ لمحے، مقام، یا فوری ضروریات تک ہی محدود ہیں۔ کوئی بھی جانور اپنے بچوں کو اپنے آباؤ اجداد کی داستانیں سنانا یا اگلے موسم گرما میں کہاں چھٹیاں گزارنی ہیں، اس پر بات چیت نہیں کر سکتا۔

2. تخلیقیت اور تخیل (Creativity & Imagination)

· انسانی مثال: انسان نے موسیقی بنائی، مصوری ایجاد کی، ناول لکھے، اور فلمیں بنائیں۔ ہم ایسی چیزیں ایجاد کرتے ہیں جو فطرت میں موجود نہیں ہیں، جیسے پہیہ، کمپیوٹر، اور اسمارٹ فون۔ ہم ایسی جگہوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جہاں کبھی نہیں گئے، جیسے مریخ پر کالونیاں بسانے کے منصوبے۔

· حیوانی موازنہ: کچھ جانور اوزار کا استعمال کرتے ہیں (جیسے چیمپینزی لکڑی کی سلاخوں سے دیمک پکڑتے ہیں)، لیکن یہ ایک مشاہدے پر مبنی، مقصدی سرگرمی ہے نہ کہ تخلیقی ایجاد۔ ایک چیمپینزی کبھی بھی ایک نئے قسم کا اوزار ڈیزائن نہیں کرے گا جسے وہ فطرت میں نہیں دیکھتا۔

3. پیچیدہ مسائل حل کرنے کی صلاحیت (Complex Problem-Solving)

· انسانی مثال: انسانوں نے ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کیا، واکسن ایجاد کر کے بیماریوں کو شکست دی، انٹرنیٹ بنا کر پوری دنیا کو جوڑ دیا، اور مصنوعی ذہانت جیسی چیزیں تیار کیں۔ یہ سب طویل مدتی منصوبہ بندی، تجربات، اور اج کا نتیجہ ہیں۔

· حیوانی موازنہ: ایک لومڑی کسی بند ڈبے میں سے کھانا نکالنے کا راستہ ڈھونڈ سکتی ہے، لیکن وہ یہ نہیں سوچ سکتی کہ اس ڈبے کو بنانے والے کارخانے میں جا کر اس کی ڈیزائننگ میں تبدیلی کرے تاکہ مستقبل کے ڈبے کھولنا آسان ہو جائیں۔

4. نفسانیات (Theory of Mind)

· انسانی مثال: انسان دوسروں کے ذہن میں کیا چل رہا ہے، اسے سمجھ سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دوسرے شخص کے خیالات، عقائد، اور جذبات ہمارے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ یہی صلاحیت ہمیں تعاون، دھوکہ دہی، ہمدردی، اور پیچیدہ معاشرتی تعلقات قائم کرنے کے قابل بناتی ہے۔

· حیوانی موازنہ: کچھ جانوروں (جیسے بندرے، ڈولفنز، کتوں) میں اس کا بہت ہلکا سا اشارہ دیکھا گیا ہے، لیکن یہ انتہائی محدود ہے۔ مثال کے طور پر، ایک کتا آپ کے چہرے کے تاثرات سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ آپ غصے میں ہیں یا خوش، لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کا ایک مخصوص سیاسی نظریہ کیوں ہے یا آپ کل دفتر میں ہونے والی میٹنگ کے بارے میں کیوں پریشان ہیں۔


5. علم کا اجتماعی اور نسلی ارتقاء (Cumulative Culture)

یہ شاید انسانی برتری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

· انسانی مثال: انسان اپنے علم اور تجربے کو تحریر، تعلیم اور روایات کے ذریعے اگلی نسل تک منتقل کرتا ہے۔ ہر نسل پچھلی نسل کے علم پر کھڑی ہو کر نئی ایجادات کرتی ہے۔ ہم نے آگ دریافت کی، پھر اس پر کھانا پکانا سیکھا، پھر دھات کاری کی، پھر انجن بنایا، اور آخرکار روکیٹ ایجاد کیا۔ یہ سفر ہزاروں سالوں کا ہے۔

· حیوانی موازنہ: جانوروں میں بھی کچھ ثقافت ہوتی ہے (جیسے ایک خاص قسم کے بندر مٹی سے دانے صاف کرنا دوسرے بندروں سے سیکھتے ہیں)، لیکن یہ علم جمود کا شکار ہوتا ہے۔ اس میں ہزاروں سالوں میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوتی۔ ایک آج کا چمپینزی اس کے آباؤ اجداد سے کہیں زیادہ جدید اوزار استعمال نہیں کرتا۔

خلاصہ:

خصوصیت انسانی مثال حیوانی موازنہ (حدود کے ساتھ)

زبان فلسفہ، شاعری، سائنس کی تخلیق محدود اشارے، فوری خطرے کی اطلاع

تخیل سائنس فکشن ناول، مریخ پر جانے کے منصوبے فوری مسائل حل کرنا (جیسے بند ڈبہ کھولنا)

مسئلہ حل کرنا ویکسین، انٹرنیٹ، ڈیم بنانا اوزار کا بنیادی استعمال (جیسے پتھر سے nuts توڑنا)

نفسانیات دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنا، ہمدردی بنیادی جذبات کو پہچاننا (خوشی، غصہ)

علم کی منتقلی کتابیں، اسکول، آن لائن کورسز نسل در نسل محدود طرز عمل کی نقل (مشاہدے سے)

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ برتری انسانوں کو “بہتر” نہیں بناتی، بلکہ صرف مختلف بناتی ہے۔ ہر جانور اپنے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے انتہائی ماہر ہے۔ انسان کی فکری صلاحیتوں نے اسے زمین پر غالب ضرور بنا دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ذمہ داری بھی آتی ہے کہ وہ دوسرے جانداروں اور خود اپنے سیارے کے لیے اس عقل کو مثبت طور پر استعمال کرے۔

6. نتیجہ

لفظوں کی پیدائش ایک حیاتیاتی واقعہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی معجزہ ہے۔ اس نے انسان کو ماضی سے جوڑ کر مستقبل کی تعمیر کا امکان دیا۔ زبان نے خوابوں کو حقیقت میں بدلا، علم کو صدیوں تک محفوظ رکھا، اور انسانی شعور کو کائنات کی وسعتوں تک پہنچایا۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے:

لفظوں کی پیدائش ایک تہذیبی معجزہ ہے”۔ یہ محض آوازوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ وہ کلید ہے جس نے انسانی تہذیب کے تمام خزانے کھول دیے۔ آئیے اس معجزے کو چند مزید مثالوں اور وضاحت سے سمجھتے ہیں۔

۱۔ علم کا ارتقاء اور جمع ہونا (Cumulative Knowledge)

زبان سے پہلے، علم ایک فرد تک محدود تھا یا پھر اشاروں اور نقوش کے ذریعے منتقل ہوتا تھا، جو وقت کے ساتھ ضائع ہو جاتا تھا۔

· مثال: ایک ماہرِ نباتات جنگل میں کھانے کے قابل پودوں کی پہچان کرتا۔ زبان کی بدولت وہ یہ علم اپنی پوری برادری کو سکھا سکتا تھا۔ تحریر کی ایجاد کے بعد، اس نے یہ معلومات ایک “قلمی کتاب” میں لکھ دی۔ وقت گزرنے کے ساتھ، مختلف نسلوں کے ماہرین نے اس کتاب میں نئے پودوں کے بارے میں اضافہ کیا، ان کے medicinal benefits لکھے، اور انہیں کاشت کرنے کے طریقے ایجاد کیے۔ یہی جمع شدہ علم آج جدید ادویات، زراعت اور حیاتیات کی بنیاد ہے۔ بغیر زبان کے، ہر نسل صفر سے شروع کرتی۔

۲۔ ماضی سے رابطہ اور مستقبل کی تعمیر

زبان نے ہمیں وقت میں سفر کرنے کی صلاحیت دی۔ ہم نے ماضی کے واقعات کو 기록 کیا اور مستقبل کے لیے منصوبے بنائے۔

· مثال: فراعینِ مصر نے اپنے مقبروں پر ہائیروگلیفکس کے ذریعے اپنی داستانیں کندہ کرائیں۔ ہزاروں سال بعد، جب ہم نے ان تحریروں کو ڈی کوڈ (decode) کیا، تو ہم نے ان کی تہذیب، ان کے عقائد اور ان کی روزمرہ کی زندگی کے بارے میں جانا۔ یہ الفاظ ہی تھے جنہوں نے ہمیں ماضی سے جوڑا۔

· مثال: آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت (E=mc²) ایک ایسا خیال تھا جو اس کے دماغ میں پیدا ہوا اور جسے اس نے الفاظ اور ریاضیاتی علامات میں ڈھالا۔ اس ایک نظریے نے ہمیں جوہری توانائی تک رسائی دی، خلائی سفر کے نئے راستے کھولے، اور جی پی ایس جیسی ٹیکنالوجی کو ممکن بنایا۔ یہ الفاظ ہی تھے جنہوں نے ایک خواب کو حقیقت میں بدلا۔

۳۔ تصورات اور تجریدات کی تخلیق (Creation of Abstracts)

زبان نے ہمیں ان چیزوں کے بارے میں بات کرنے کے قابل بنایا جو ہم دیکھ یا چھو نہیں سکتے۔

· مثال: “انصاف”, “آزادی”, “محبت”, “خدا” — یہ تمام تصورات الفاظ کے بغیر بیان سے باہر ہیں۔ ان الفاظ نے ہمیں معاشرے بنانے، قوانین وضع کرنے، فلسفہ کرنے اور آرٹ تخلیق کرنے کے قابل بنایا۔ ایک بندر غصہ یا خوشی تو ظاہر کر سکتا ہے، لیکن وہ “جمہوریت” یا “اخلاقیات” کے بارے میں بحث نہیں کر سکتا۔

۴۔ بین الثقافتی علم کا تبادلہ (Cross-Cultural Exchange)

زبان نے مختلف تہذیبوں کے درمیان علم کے پل تعمیر کیے۔

· مثال: بغداد کے House of Wisdom (بیت الحکمت) میں عربی، یونانی، فارسی اور سنسکرت کی ہزاروں کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔ یونانی فلسفہ، ہندوی ریاضی، اور ایرانی فلکیات — سب کو ایک زبان (عربی) میں منتقل کیا گیا اور پھر یہی علم یورپ پہنچا جہاں اس نے سائنسی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اگر ترجمے کا یہ سلسلہ نہ ہوتا تو یونانی فلسفے کا بیشتر حصہ ضائع ہو چکا ہوتا۔

۵۔ شعور کی وسعت (Expansion of Consciousness)

زبان نے ہمارے شعور کو ہمارے اردگرد کی دنیا سے آگے پوری کائنات تک پھیلا دیا۔

· مثال: ہم الفاظ اور ریاضی کی مدد سے بلیک ہولز کے بارے میں بات کرتے ہیں، کوانٹم میکانکس کے paradoxes پر بحث کرتے ہیں، اور ارتقاء کے لاکھوں سال پر محیط سفر کو ایک نظریے کی شکل میں سمجھاتے ہیں۔ ہم ان چیزوں کو کبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکے، لیکن الفاظ نے ہمیں انہیں دریافت کرنے، ان کے بارے میں سوچنے اور انہیں نسل در نسل منتقل کرنے کے قابل بنایا۔

نتیجہ:

لفظ صرف “بول چال” کا ذریعہ نہیں ہے۔ یہ دراصل خیال کی کرنسی ہے۔ یہ وہ آلہ ہے جس نے:

1. علم کو موت سے بچا لیا (ایک شخص مرتا ہے، لیکن اس کی کتابیں زندہ رہتی ہیں)۔

2. تخیل کو پرواز دی (ہم ایسی دنیائیں تخلیق کر سکتے ہیں جو موجود نہیں ہیں)۔

3. مشترکہ سوچ کو ممکن بنایا (اجنبی افراد ایک مشترکہ مقصد کے لیے اکٹھے ہو  سوسکتے ہیں اور سوچ سکتے ہیں)۔ 

4. شعور کو لامحدود بنا دیا (ہم وقت و مکان کی قید سے آزاد ہو کر سوچ سکتے ہیں)۔

یہی وہ “تہذیبی معجزہ” ہے جس نے ایک عام primate کو سیارے Earth کے سب سے طاقتور اور تخلیقی وجود میں تبدیل کر دیا۔ الفاظ وہ جادو ہیں جسے ہم روز استعمال کرتے ہیں، many times without realizing its true powe

“زبان صرف بولنے کا وسیلہ نہیں، سوچنے کا آلہ بھی ہے۔”

انسان کی حیوان پر برتری اسی شعوری اور تخلیقی زبان میں پوشیدہ ہے، جو محض آواز نہیں بلکہ معنی کی جادوگری ہے۔

اس کہانی کو ایک مضمون جو کہ بہت گہرا اور پر اثر تشبع و استعاروں سے برپور ایک منجھے ہوے لکھاری کی طرح، زبان کے سارے راز اور اثرات، لفظوں کی جادوگری، لفظوں کا انسانوں کی طرح پیدائش سے مرنے تک کی کہانی، وقت کے لفظوں کے رویوں میں تبدیلی، لفظ کا مختلف جھرمٹوں میں بدلتے تیور ۔

یہ نقطہ انتہائی اہم اور درست ہے کہ زبان صرف خیالات کا اظہار کرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ درحقیقت خود خیالات کو تشکیل دینے اور سوچنے کے عمل کو مربوط کرنے کا بنیادی آلہ ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے ہمارے پاس ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جو نہ صرف ڈیٹا کو آؤٹ پٹ دیتا ہے بلکہ اس ڈیٹا کو پروسیس کرنے کا طریقہ بھی طے کرتا ہے۔

ذیل میں اسے مزید مثالوں اور وضاحت سے سمجھایا گیا ہے:

۱۔ زبانی خانے اور حقیقت کی ترتیب (Linguistic Categories & Reality)

ہماری زبان ہمیں دنیا کو مختلف خانوں یا زمرے (categories) میں بانٹ کر دیکھنے پر مجبور کرتی ہے، جس سے ہماری سوچ کی ساخت بنتی ہے۔

· مثال: رنگ:

  · انگریزی زبان میں نیلے (blue) کے لیے ایک ہی لفظ ہے۔

  · روسی زبان میں گہرے نیلے کے کئی نام ہیںاور ہر نام ایک بنیادی لفظ ہے۔مثلا”  (goluboy) اور ہلکے نیلے (siniy) کے لیے دو الگ الگ بنیادی الفاظ ہیں۔

  · تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ روسی بولنے والے لوگ ان  رنگوں میں فرق کرنے میں انگریزی بولنے والوں سے تکونی طور پر تیز ہوتے ہیں۔ ان کی زبان نے ان کی سوچ کو اس طرح ڈھالا ہے کہ وہ ان  رنگوں کو الگ چیزیں سمجھتے ہیں، نہ کہ ایک ہی رنگ کے  شیڈ۔

  · نتیجہ: زبان صرف رنگ بیان نہیں کر رہی، بلکہ یہ طے کر رہی ہے کہ آپ رنگ کو کس طرح دیکھیں گے اور کیٹگریز کریں گے۔

۲۔ نحو (Grammar) اور واقعات کو دیکھنے کا نقطہ نظر

زبان کا گرامر یہ طے کرتا ہے کہ ہم واقعات اور تعلقات کو کس طرح فریم کرتے ہیں۔

· مثال: ذمہ داری (Agency):

  · ایک حادثے کی رپورٹنگ کے دو طریقے:

    1. “زید نے کھڑکی توڑ دی۔” (فاعل + فعل + مفعول)

    2. “کھڑکی ٹوٹ گئی۔” (غیر شخصی فعل)

  · پہلا جملہ واضح طور پر زید کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ دوسرا جملہ واقعے کو ایک حادثہ بنا کر پیش کرتا ہے، جس میں کسی فرد کی براہ راست ذمہ داری واضح نہیں ہوتی۔

  · نتیجہ: زبان کا انتخاب صرف بیان کا طریقہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارے سوچنے کے انداز، واقعات کی تشریح اور یہاں تک کہ قانونی ذمہ داری کو بھی متاثر کرتا ہے۔

۳۔ تصورات کی تخلیق اور ان سے عاری ہونا

جو چیزیں ہماری زبان میں موجود نہیں ہوتیں، ان کے بارے میں سوچنا ہمارے لیے انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔

· مثال: وقت کا تصور:

  · انگریزی اور اردو جیسی زبانیں وقت کو ایک سیدھی لکیر (Linear) مانتی ہیں (ماضی → حال → مستقبل)۔

  · آسٹریلیا کی ابیورجینل زبانوں میں سے کچھ میں وقت کو مشرق سے مغرب کی طرف بہتا ہوا تصور کیا جاتا ہے، جو سورج کے سفر سے مطابقت رکھتا ہے۔ ان کے لیے “ماضی” مشرق میں ہے اور “مستقبل” مغرب میں۔

  · نتیجہ: یہ مختلف زبانیں اپنے بولنے والوں کو وقت کے بارے میں مکمل طور پر مختلف ذہنی نقشے (Mental Maps) دیتی ہیں۔

چینی حضرات اوپر سے نیچے کی شکل میں سوچتے ہیں اور  لکھتے بھی اسی طرح ہیں۔ان کا ماضی اوپر اور مستقبل نیچے ہوتا ہے۔

۴۔ اندرونی مکالمہ (Inner Monologue)

ہماری سوچ کا زیادہ تر عمل درحقیقت ہمارے اپنے دماغ میں ایک خاموش مکالمہ ہے۔ ہم اپنے آپ سے الفاظ میں سوالات پوچھتے ہیں اور جوابات دیتے ہیں۔

· سوچیے: جب آپ کوئی مشکل فیصلہ کرتے ہیں، تو کیا آپ کے خیالات بے ترتیب تصویریں ہوتی ہیں یا آپ کے دماغ میں ایک آواز ہے جو کہتی ہے: “اگر میں یہ کرتا ہوں تو اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ شاید مجھے فلاں شخص سے مشورہ لے لینا چاہیے…”؟

· یہ “آواز” درحقیقت زبان ہے جو آپ کے سوچنے کے عمل کو منظم کر رہی ہے، فوائد و نقصانات کا جائزہ لے رہی ہے، اور آپ کے تجربات کو یاد دلا رہی ہے۔ بغیر اس اندرونی زبان کے، ہماری سوچ بہت زیادہ غیر مربوط اور تجریدی ہوتی۔

۵۔ پیچیدہ مسئلہ حل کرنا

کسی بھی پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے، ہم اسے چھوٹے چھوٹے حصوں میں توڑتے ہیں، اور یہ کام ہم الفاظ کے ذریعے ہی کرتے ہیں۔

· مثال: ایک انجینئر ایک پل ڈیزائن کر رہا ہے۔ وہ اپنے دماغ میں سوچتا ہے: “پہلا مرحلہ: لوڈ کا حساب لگاؤ۔ دوسرا مرحلہ: موزوں مواد کا انتخاب کرو۔ تیسرا مرحلہ: سپورٹس کی جگہیں طے کرو۔”

· یہ “مراحل” درحقیقت الفاظ ہیں جو ایک بہت بڑے اور پیچیدہ کام کو منظم منطقی اقدامات میں تقسیم کرتے ہیں۔ زبان نے ہمیں ایک ایسا فکری ٹول کٹ دیا ہے جس کی مدد سے ہم کوئی بھی مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔

خلاصہ:

زبان ہمارے خیالات کے لیے صرف ایک ڈسپلے اسکرین نہیں ہے؛ یہ ہمارے دماغ کا آپریٹنگ سسٹم ہے۔

1. یہ ہماری حسی تجربے کو ترتیب دیتی ہے (جیسے رنگوں کا معاملہ)۔

2. واقعات کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر کو تشکیل دیتی ہے (جیسے ذمہ داری کا معاملہ)۔

3. ہمارے انتہائی بنیادی تصورات (جیسے وقت) کی بنیاد رکھتی ہے۔

4. ہمارے اندرونی مکالمے کو ممکن بناتی ہے، جو ہماری شخصیت اور فیصلہ سازی کی بنیاد ہے۔

5. پیچیدہ کاموں کو منطقی مراحل میں تقسیم کر کے ہمیں مسائل حل کرنے کے قابل بناتی ہے۔

اس لیے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ “ہم وہ سوچتے ہیں، جو ہم بولتے ہیں؛ اور ہم وہ بولتے ہیں، جو ہم سوچتے ہیں” — دونوں ایک دوسرے کو باہم متاثر کرتے ہیں اور گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں۔

 یہ ایک انتہائی گہرائی اور بصیرت سے بھرپور مضمون جو زبان کے ارتقا، لفظوں کی پیدائش اور ان کے انسانی تہذیب پر گہرے اثرات پر روشنی ڈالتا ہے۔ میں اس کہانی کو مزید وسعت اور گہرائی دیتے ہوئے ایک نئے  انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

لفظوں کی پیدائش اور موت: ایک شعریاتِ ارتقا

شعریات، اس زبان کی اکائیوں کی نشاندہی کے ساتھ امتزاج واتصال کے اصول بیان کرتی ہے۔ اس طرح وہ اعلیٰ درجے کی زبان ‘لسانیات’ کا درجہ حاصل کر جاتی ہے۔

لفظ محض صوتی ارتعاش نہیں ہیں؛ وہ زمان و مکان میں گونجتے ہوئے شعری بیج ہیں جنہوں نے انسانی تقدیر کی فصل اُگائی ہے۔ ان کی پیدائش ایک خاموش دھماکے (Silent Big Bang) کی مانند تھی، جس نے کائناتِ انسانی کو ایک ایسی توانائی بخشی جس کی بازگشت آج بھی ہماری سوچ، ہمارے خواب اور ہماری تہذیب میں سنائی دیتی ہے۔

زبان: ایک زندہ ارتقائی وجود

لفظ پیدا ہوتے ہیں، جوان ہوتے ہیں، بڑھاپے کو پہنچتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ وہ وقت کے ساتھ اپنا مفہوم بدلتے ہیں، جیسے ایک دریا کا راستہ بدلتا ہے۔ ‘عشق’ جیسا لفظ، جس نے اپنی ابتدا شاید محض جسمانی کشش یا قبیلے کے بندھن سے کی تھی، صدیوں کے سفر میں رومی کے ہاں روحانی وجدانوں تک پہنچا۔ ‘طاقت’ کا لفظ، جو کبھی محض بازو کے پٹھوں کی شدت کا نام تھا، آج معاشی اجارہ داری اور ڈیٹا کی بالادستی کا استعارہ بن چکا ہے۔ یہ لفظوں کا ارتقائی ڈی این اے ہے، جو ہر عہد میں خود کو نئے سرے سے ڈھال لیتا ہے۔

لفظ کبھی پورے کے پورے مرتے نہیں؛ وہ اپنے مفہوم کے چھلکے اتار کر نئے وجود میں ڈھل جاتے ہیں۔ پرانے سنسکرت، لاطینی یا پرانی فارسی کے لفظ آج بھی ہماری زبانوں میں اپنی ارواح کے سہارے زندہ ہیں، جیسے کوئی پرانا درخت اپنی جڑوں سے نئی کونپلیں پھوٹتا ہے۔

زبان کے جھرمٹ: سیاق و سباق کی طلسماتی طاقت

لفظ اکیلا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کی طاقت اس کے جھرمٹ (Context) میں پنہاں ہے۔ ایک ہی لفظ مختلف جھرمٹوں میں اپنے تیور بدل لیتا ہے۔ ‘جنگ’ کا لفظ ایک فوجی کے لیے ایک حقیقت، ایک سیاستدان کے لیے ایک حکمت عملی، ایک ماں کے لیے ایک المیہ، اور ایک شاعر کے لیے ایک استعارہ ہے۔ یہ جھرمٹ ہی ہیں جو لفظ کو معنی کا زیور پہناتے ہیں، اور بعض اوقات یہی جھرمٹ لفظ کو زہر میں بھی بھگوتے ہیں۔ پروپیگنڈے کی طاقت اسی لفظی جادوگری پر کام کرتی ہے۔

لفظ اور خاموشی کا رقص

لفظوں کی سب سے بڑی طاقت شاید وہ خاموشی ہے جسے وہ جنم دیتے ہیں۔ ایک اچھا شاعر یا ادیب وہ نہیں جو زیادہ سے زیادہ لفظ استعمال کرے، بلکہ وہ ہے جو کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ خاموشیوں کا سامان پیدا کر دے۔ یہ خاموشی ہی تو ہے جو قاری کے ذہن میں سوچ کے جھرنے پھوٹتی ہے۔ لفظ اور خاموشی کا یہ رقص ہی ادب کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔

ڈیجیٹل دور: لفظوں کی نئی کائنات

آج ہم لفظوں کے ایک نئے ارتقائی موڑ پر کھڑے ہیں۔ ایموجیز، جی آئیFوں، اور ابیسیوی زبان (Internet Slang) نے لفظوں کو نئی شکلیں دی ہیں۔ ‘LOL’, ‘BRB’, ‘سلفی’، ‘وائرل’—یہ نئے زمانے کے غاروں پر بننے والے نئے نقش و نگار ہیں۔ یہ لفظ تیز، مختصر اور بصری ہیں۔ کیا یہ انسانی سوچ کو سطحی بنا رہے ہیں، یا اسے ایک نئی وسعت دے رہے ہیں؟ یہ تاریخ ہی طے کرے گی۔ پرانی نسل کے لفظ ‘خط’ کی جگہ ‘ای میل’ اور ‘ٹویٹ’ نے لے لی ہے، جو پرانی مٹھاس تو نہیں رکھتے مگر نئی تیز رفتاری ضرور رکھتے ہیں۔

آخری بات: لفظ معنی کا قبرستان نہ بن جائیں

لفظوں کا سب سے بڑا خطرہ یہ نہیں کہ وہ مر جائیں گے، بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنا معنی کھو دیں گے۔ جب لفظوں کو بار بار بے معنی طریقے سے استعمال کیا جائے گا، وہ اپنی طلسماتی قوت کھو دیں گے۔ انسانی برتری کا راز اس بات میں ہے کہ ہم لفظوں کو محض ابلاغ کا ذریعہ نہ سمجھیں، بلکہ ان کی sanctity کو پہچانیں۔ ہم وہی ہیں جو ہم بولتے ہیں۔ ہماری زبان ہماری تہذیب کی آئینہ دار ہے۔

جیسے کسی بزرگ نے کہا تھا: “لفظوں سے پہلے خیال آتا ہے، اور لفظوں کے بعد جو خاموشی آتی ہے وہ اس سے بھی گہری ہوتی ہے۔”

یہی خیال، لفظ اور پھر خاموشی کا یہی تسلسل انسانی شعور کی لامتناہی وسعتوں کی دلیل ہے۔ یہی وہ برتری ہے جس نے انسان کو زمین کا تاجدار نہیں، بلکہ کائنات کا ایک سوچتا ہوا باشندہ بنا دیا ہے۔

فلسفہ میں “میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں” کا کیا مطلب ہے؟

یہ جملہ “میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں”، جسے لاطینی زبان میں Cogito، ergo sum کے نام سے جانا جاتا ہے، فرانسیسی فلسفی René Descartes نے بیان کیا تھا۔ اس نے اسے اپنے فلسفے کے بنیادی اصول کے طور پر پیش کیا، جس کا آغاز ہر چیز پر سوال اٹھا کر ایک قطعی یقین کو تلاش کرنے کے لیے کیا گیا جس پر شک نہیں کیا جا سکتا، اس نتیجے پر کہ سوچنے کے عمل نے ہی اس کے اپنے وجود کو ثابت کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Loading...